Thursday, August 4, 2011

Jo Utar Ke Zeena e Sham Se Teri Chashm

جو اتر کے زینہء شام سے تیری چشم ِ خوش میں سما گئے
وہی جلتے بجھتے سے مہر و ماہ , میرے بام و در کو سجا گئے

یہ عجیب کھیل ہے عشق کا میں نے آپ دیکھا یہ معجزہ
وہ جو لفظ میرے گماں میں تھے وہ تیری زباں پر آگئے

وہ جو گیت تم نے سنا نہیں میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی وہ داستاں جسے تم ہنسی میں اڑا گئے

وہ چراغ ِ جاں کبھی جسکی لو نہ کسی ہوا سے نگوں ہوئ
تیری بےوفائ کے وسوسے اسکے چپکے چپکے بجھا گئے

وہ تھا چاندشام ِ وصال کا کہ تھا روپ تیرے جمال کا
میری روح سے میری آنکھ تک کسی روشنی میں نہا گئے

یہ جو بندگان ِ نیاز ہیں یہ تمام ہیں وہی لشکری
جنھیں زندگی نے اماں نہ دی تو تیرے حضور میں آگئے

تیری بے رخی کے دیار میں , میں ہوا کے ساتھ ہوا ہُوا
تیرے آئینے کی تلاش میں میرے خواب چہرہ گنوا گئے

تیرے وسوسوں کے فشار میں تیرا شرار ِ رنگ اجڑ گیا
میری خواہشوں کےغبار میں میرے ماہ و سال ِ وفا گئے

وہ عجیب پھول سے لفظ تھے تیرے ہونٹ جن سے مہک اٹھے
میرے دشت ِ خواب میں دور تک کوئ خواب جیسے لگا گئے

میری عمر سے نہ سمٹ سکے میرے دل میں اتنے سوال تھے
..X..تیرے پاس جتنے جواب تھے تیری اک نگاہ میں آگئے

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment

StatCounter