Wednesday, July 7, 2010

Dekhey Bhaley Hain



باتیں تو ہیں اُجلی اُجلی، من اندر سے کالے ہیں
اس نگری کے سارے چہرے اپنے دیکھے بھالے ہیں

نینوں میں کاجل کے ڈورے رُخ پہ زُلف کے ہالے ہیں
من مایا کو لوٹنے والے کتنے بھولے بھالے ہیں

تم پر تو اے ہم نفسو! کچھ جبر نہیں، تم تو بولو
ہم تو چپ سادھے بیٹھے ہیں اور زباں پر تالے ہیں

آنکھوں میں روشن ہیں تمھاری آشاؤں کے سندر دِیپ
دل میں سہانی یادوں کے کچھ دُھندلے سے اجیالے ہیں

تم سے کیسا شکوہ کرنا، شکوہ کرنا اب لاحاصل
خود ہی سوچو تم نے اب تک کتنے وعدے ٹالے ہیں

آج اگر احباب ہمارے ہم کو ڈستے ہیں تو کیا؟
یہ زہریلے ناگ تو ناصر ہم نے خود ہی پالے ہیں





شاعر: ناصر زیدی

No comments:

Post a Comment

StatCounter