Sunday, August 8, 2010

فرض کرو ہم تارے ہوتے


فرض کرو ہم تارے ہوتے 


اِک دوجے کو دور دور سے دیکھ دیکھ کر جلتے بُجھتے 
اور پھر اِک دن 
شاخِ فلک سے گرتے اور تاریک خلاؤں میں کھو جاتے 
دریا کے دو دھارے ہوتے 
اپنی اپنی موج میں بہتے 
اور سمندر تک اس اندھری، وحشی اور منہ زور مسافت 
کے جادو میں تنہا رہتے 
فرض کرو ہم بھور سمے کے پنچھی ہوتے 
اُڑتے اُڑتے اِک دوجے کو چھوتے۔۔۔ اور پھر 
کھلے گگن کی گہری اور بے صرفہ آنکھوں میں کھو جاتے! 
ابرِ بہار کے جھونکے ہوتے 
موسم کے اِک بے نقشہ سے خواب میں ملتے 
ملتے اور جُدا ہو جاتے 
خشک زمینوں کے ہاتھوں پر سبز لکیریں کندہ کرتے 
اور اَن دیکھے سپنے بوتے 
اپنے اپنے آنسو رو کر چین سے سوتے 
فرض کرو ہم جو کچھ اب ہیں وہ نہ ہوتے ۔۔۔۔ ؟

No comments:

Post a Comment

StatCounter